حوزہ نیوز ایجنسی| ذرائع ابلاغ کی مانی جائے تو ان دنوں کورونا کے باعث دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے سبب مرد و زن ،خورد وکلاں سبھی گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں اور یہ ایک عمدہ راستہ ہے اس مہلک وبا سے نجات حاصل کرنے کا۔لیکن ان دنوں ازدواجی زندگیوں میں تلخ و ناگوار واقعات سننے کو مل رہے ہیں ۔برطانیہ اور فرانس سمیت دیگر ممالک میں لاک ڈاؤن کے سبب گھریلو تشدد و اختلافات کی شرح میں ٣٠فیصد تک اضافہ بیان کیا جا رہا ہے۔برطانوی اخبار دی گارجئین کی رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران چین سے لے کر فرانس اور اٹلی سے لے کر اسپین جبکہ جرمنی سے لے کر برازیل جیسے ممالک میں گھریلو تشدد میں اضافہ دیکھا گیا۔
کم و بیش یہی صورت حال ہمارے اپنے ملک کی بھی ہے جہاں مسلسل لاک ڈاؤن جیسی کیفیت ہی نظر آتی ہے کہ آئے دن مرد وزن باہمی اختلاف کا شکار ہوتے ہیں اور پھر معاملہ تھانہ چوکی،کورٹ کچہری تک پہنچتا ہے۔ایسے میں اگر دینی تعلیمات اور ہادیان برحق کے بیان کردہ زرین اصول زندگانی دنیا والوں کے سامنے پیش کر دئیے جائیں تو یقیناعام دنوں میں بالعموم اور لاک ڈاؤن جیسی صورتحال میں بالخصوص گھر گھرانے کو جنت نشان بنانا بیحد آسان ہو سکتا ہے۔
اہل خانہ کے ساتھ حُسن سلوک سے متعلق چند باتیں بیان کرنا ضروری ہیں ۔گھر گھرانہ اسی وقت جنت نظیر ہو سکتا ہے جب اہل خانہ کے درمیان سازگاری اور فکری یکجہتی پائی جائے۔کائنات میں بے نظیر وبے مثال ازدواجی زندگی گزارنے والے حضرت علی علیہ السلام اورحضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی کامیاب مشترکہ حیات کا راز یہی تھا کہ ان دونوں ہستیوں میں فکری ہماہنگی پائی جاتی تھی۔اہل خانہ کو میں اور من کی فضا سے نکل کر ہم کی وادی میں قدم رکھنا ہوگا۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو یقینادوریاں بڑھتی چلی جائیں گی۔اگر مشترکہ حقوق ادا نہ کئے گئے تو زندگی تباہ کن ہوگی۔گھر میں موجود افراد معمولی سے سفر کے ہمسفر نہیں کہلا سکتے جہاں انسان یہ سوچکر صبر کر لیتا ہے کہ چند گھنٹوں کے بعد ہم ایک دوسرے سے الگ جائیں گے۔ازدواجی زندگی میں انسان کو جوانی سے بڑھاپے تک کا سفر طے کرنا ہے ۔ایک چھت کے نیچے مکمل حیات بسر کرنی ہے ۔اگر ایسے میں فکری سازگاری نہیں پائی گئی تو زندگی جہنم بن جائے گی اور انسان جیتا جی مرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ہم قارئین کے لئے چند اہم اصول نہایت اختصار کے ساتھ بیان کریں گے جس پر عمل در آمد ہو کر گھر کے حدود میں محبت والفت کی فضا برقرار کی جا سکتی ہے:
[١]ایک دوسرے کی شناخت:آپسی شناخت بیحد ضروری ہے۔شناخت کبھی جزئی ہوتی ہے کبھی کلی۔عموماً مردوں کی شناخت کلی ہوتی ہے لیکن خواتین کی شناخت جزئی ہوا کرتی ہے۔اسے ایک مثال کے ذریعہ با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔اگر مرد وزن کہیں مہمان بن کر جائیں تو واپسی میں مرد فقط کھانے کی تعریف کرتا ہیلیکن خاتون پردوں کے رنگ سے لے کر بیڈ شیٹ تک کے بارے میں تبصرہ کرتی ہے۔اچھی مشترکہ حیات کے لئے مرد وزن دونوں کو ایک دوسرے کے سلیقہ کو پہچاننا ہوگا۔اکثر دیکھا گیا کہ سلیقہ کی شناخت نہ ہونے کے سبب گھر کی مکدر ہو جاتی ہے ۔کسی کو کوئی غذا پسند کسی کو کوئی ۔پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا:''المومن یاکل بشھوة اہلہ والمنافق یاکل اھلہ بشھوتہ''۔(الکافی،ج٤،ص١٢،بحار،ج٥٩،ص٢٩١)یعنی مومن جب کھانا کھاتا ہے تو اپنے گھر والوں کے سلیقہ کو پرکھ لیتا ہے اور منافق چاہتا ہے کہ اہل خانہ اس کی پسند کے مطابق کھانا کھائیں۔
[٢]ایک دوسرے کا احترام:مرد وزن حق و حقیقت اور صدق وصداقت پر مبنی ایک دوسرے کا احترام کریں ۔ایک شخص رسول اعظم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے:یا رسول اللہ!میں جب بھی کبھی گھر سے باہر آتا ہوں تو میری زوجہ میرے استقبال کو آتی ہے،جب گھر سے باہر جاتا ہوں تو مجھ سے خداحافظی کرتی ہے۔اس کی اس فرض شناسی سے میں اپنی تھکن بھول جاتا ہوں ۔جب کبھی مجھے غمگین پاتی تو فوراً سوال کرتی ہے کہ افرسدگی کیوں؟اگر رزو روزی وجہ تو پروردگار نے اسے اپنے ذمہ لیا ہے اور اگر آپ اپنی آخرت سے ڈرتے ہیں تو میں آپ کی عاقبت بخیری کی دعا کرتی ہوں۔اس موقع پر نبی مرسل نے فرمایا:''ان للہ عمالاً و ھذہ من عمّالہ لھا نصفُ اجرِ الشّھید''۔(من لا یحضرہ الفقیہ،ج٣،ص٣٨٩)اس حدیث میں پیغمبر اعظم سے اسے ایک شہید کے آدھے اجر کا مستحق قرار دیا۔
البتہ یاد رہے کہ یہ احترام معصیت پروردگار میں نہیں ہونا چاہئے کہ خاتون خانہ گھر سے بے حجاب نکلنا چاہے تو مرد یہ سوچ کر اجازت دیدے کہ احترام کا تقاضا خاموش رہنا ہے یا بالعکس مرد کسی حرام کو انجام دے اور خاتون یہ سوچکر سکوت اختیار کر لے کہ احترام کا مطلب یہ کہ انہیں اس کام میں نہ روکا جائے نہ ٹوکا جائے۔
[٣]مرد و زن کا آراستہ ہونا:مشترکہ حیات میں ایک اہم عنصر جس سے آپسی مفاہمت میں اضافہ ہوتا ہے وہ ہے مرد وزن کا خوش لباس ہونا۔اسی لئے امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:''مرد کی خوبصورتی خاتون کی عفت میں اضافہ کا سبب قرار پاتی ہے''۔پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:''اغسلوا ثیابکم و خُذوا من شعورکم واستاکوا و تزیّنوا و تنظَّفوا فانّ بنی اسرائیل لم یکونوا یفعلون کذالک فزنت نساؤھم''۔(نہج الفصاحة،ص٢٦٦،ح٣٧٧)''اپنے کپڑے دھو،بالوں کی اصلاح کرو،زینت کرو،نظافت کی رعایت کرو،بنی اسرائیل کے مردوں نے ایسا نہ کیا لہٰذا ان کی خواتین نے بدکاری وبدفعلی کی طرف اپنے قدم بڑھائے''۔
خوش سلیقہ ہونا بھی بیحد ضروری ہے۔مصعب ابن عمیر جیسے صحابی خوش لباس تھے۔یہاں تک کہ جب جنگ احد میں انہیں شہادت نصیب ہوئی تو نبی اکرم نے فرمایا :اے عرب کے خوش لباس جوان!اب تمہیں تمہارے لباس میں دفن کیا جارہا ہے اور پھراصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا:''ھذا عبد نور اللہ قلبہ''۔عام طور سے مردوں کے توقعات میں خواتین کی زیبائش وآرائش شامل ہوتی ہے لیکن انہیں خود اپنا خیال نہیں ہوتا!جبکہ مردوں ہی کی طرح خواتین بھی انہیں خوش سلیقہ وخوش لباس دیکھنا چاہتی ہیں...
اگر مذکورہ چند اصول ہماری مشترکہ حیات میں عملی ہو جائیں تو یقینا ہمارا گھر بھی جنت نشان اور گلشن نظیر ہو سکتا ہے۔
تحریر: مولانا سید حیدر عباس رضوی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔